کرونا وائرس پر میڈیا میں غیر ضروری خوف و ہراس،مارچ میں ہزاروں دمہ اور الرجی کے مریضوں پر میڈیا کرونا وائرس کا واویلا نہ مچا دے

کرونا وائرس کی لپیٹ میں اب چین کے علاوہ دنیا کے دیگر ممالک بھی لپیٹ میں آ چکے ہیں کرونا وائرس سے نہ صرف دنیابھر کی معاشی سرگرمیوں پر منفی اثرات مرتب ہوئے ہیں بلکہ دنیا کے مختلف ممالک کے سرحدوں کو محدود بھی کردیا ہے گوبل ویلج کی سوچ جس میں دنیا کی تجارت ،ثقافت ایک گاﺅںکی شکل اختیار کی جا رہی تھی موجودہ کرونا وائرس سے اس سوچ کو بھی تبدیل کرنا پڑ رہا ہے۔

کرونا وائرس جس کے علاج کے لئے چین اور امریکہ سمیت دیگر ممالک سرتوڑ کوششیں کر رہے ہیں تو پاکستان میں بھی کرونا وائرس کی بازگشت سنائی دی جا رہی ہے۔دنیا بھر میں کرونا وائرس سے متاثرہ ممالک کا میڈیا ایک ذمہ دار کردار ادا کر رہا ہے سپین میں نہ صرف مریضوں کی شناخت بلکہ ان کی رہائش بھی چھپائی جا رہی ہے۔

پاکستان میں دیکھا جائے تو مارچ کے مہینے یعنی موسم بہار کی آمد کے ساتھ ہی جڑواں شہروں اسلام آباد راولپنڈی میں الرجی کے ہزاروں مریض ہسپتالوں کا رخ کرتے ہیں جبکہ پولن یا جنگلی گھاس،سفیدے اور جنگلی شہتوت کے پولن سے لاہور،کراچی اور پشاور کے شہری بھی متاثر ہوتے ہیں

سوال یہ ہے کہ دمہ اور الرجی کے مریضوں کی علامات کرونا وائرس سے ملتی جلتی ہیں۔ایسا نہ ہو کہ کرونا وائرس کی افواہ یا حقیقت میں ہزاروں افراد صرف خوف سے ہی متاثر نہ ہوجائیں۔سائیکالوجی میں بیماری سے زیادہ بیماری کا خوف خطرناک سمجھا جاتا ہے۔حکومت کی اگر ذمہ داریاں ہیں تو شہریوں کی بھی صفائی ستھرائی اور ماحول کو صاف رکھنا اہم ذمہ داریوں میں شمار ہوتا ہے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں