تحریک حُریت ِکشمیر کے بزرگ رہنما اشرف صحرائی نے ستتر برس کی عمرمیں جموں کے علاقے ادھم پور کی کوٹ بلوال جیل کے اذیت خانے میں داعیٔ اجل کو لبیک کہہ دیا ہے۔ گزشتہ سال انکے جواں سال بیٹے جنید صحرائی نے ہندوستانی افواج سے نبرد آزما ہو کر شہادت گاہِ اُلفت میں قدم رکھا ۔ جوان بیٹے کی موت کا صدمہ سہنا سہل نہیں ہوتا لیکن یہ اشرف صحرائی تھے جن کے انگ انگ میں ہندوستان کی غلامی سے نجات کی تڑپ تھی اور اسی آتشِ شوق کے طفیل پیری میں بھی وہ صحرا نوردی کرتے رہے۔
آتشِ عشق سے ہے سینہ گرم
جلوۂ برق، جان صحرا ہے
برہان وانی کی شہادت نے کشمیر کے جن نوخیز ذہنوں کو دوبارہ ہندوستان کیخلاف مسلح جدوجہدآزادی پر ابھارا ان میں اشرف صحرائی کے انتیس سالہ بیٹے جنید صحرائی سرفہرست تھے ۔جنید کا تعلق حریت پسندوں کی اس قبیل سے تھا جن کے ہاں زندگی سودوزیاں سے کوسوں آگے کی چیز ہے۔ کشمیر یونیورسٹی سے ایم بی اے کرنے کے بعدملازمت یا کاروبار کر کے مال و دولت دنیا کا حصول اسکے نزدیک بتانِ وہم و گماں سے چنداں زیادہ نہ تھا جسے اس نے ہمیشہ کیلئے ٹھکرا کر عزیمت کی راہ اپنائی ۔آزادی کا سفر پھولوں کی سیج نہیں ہوتا، اس راہ میں قدم قدم بلائیں اور آزمائشیں منہ کھولے کھڑی نظر آتی ہیں ۔ لیکن جنید کی تربیت اس عظیم والد کے ہاتھوں ہوئی جس نے اپنی اولاد کو مصائب میں الجھ کر مسکرانا سکھایا۔چنانچہ جنید کے اچانک گھر سے غائب ہوکر ہتھیار اٹھانے کے بعد ہندوستانی فوج نے ان کو رام کرنے کا ہر حربہ آزمایا۔اشرف صحرائی صاحب پر دباؤ ڈالا گیا کہ وہ اپنے بیٹے کو مسلح جدوجہد ترک کرنے کا کہیں لیکن انھوں نے دوٹوک مؤقف اپنایا کہ جنید ان ہزاروں نوجوانوں سے مختلف نہیں ہے جو آزادی کیلئے جان ہتھیلی پر رکھ کر کفن سر پر باندھ چکے ہیں ۔ گزشتہ مئی میں جب جنید کو شہید کردیا گیاتو وادی میں ہر طرف مظاہروں کا سلسلہ شروع ہو گیا۔جگہ جگہ کشمیری نوجوانوں کی ٹولیاں ہندوستانی فوجیوں پر پتھراؤ کرنے لگیں ۔ تنگ آکر بھارتی انتظامیہ نے وادی میں مواصلات کے تمام ذرائع بند کردیے۔جنید کے عظیم والد اشرف صحرائی نے ہندوستانی حکومت سے اپنے جواں سالہ بیٹے کی نعش حوالے کرنے کی اپیل سے انکار کر دیا ۔ انھوں نے برملا کہا کہ انکے بیٹے کا خون دیگر شہدا ء کے لہو سے زیادہ قیمتی نہیں ، لہٰذا وہ اپنے بیٹے کی نعش کیلئے قابض حکومت سے درخواست نہیں کرینگے ۔
محمد اشرف صحرائی تحریکِ حریت ِکشمیر کا ایک معتبر حوالہ تھے جنھوں نے زمانۂ طالب علمی سے ہی رسم شبیری ادا کرنے کی ٹھانی اور تادمِ مرگ اس پر قائم رہے ۔سری نگر یونیورسٹی میں دورانِ تعلیم ہی انکے مزاج شناس بھانپ گئے تھے کہ ہندوستان سے بغاوت اور مزاحمت انکی افتاد طبع کا جزولاینفک ہے ۔ وہ ایک کہنہ مشق ادیب اور شعلہ نوا خطیب تھے ۔انکی تحریریں فکرو نظر کے بند دریچے وا کرتیں تو انکی تقریریں لہو کو گرما کر سامعین کو آمادۂ عمل کرتیں ۔ وہ صرف گفتار کے غازی نہ تھے بلکہ لذّت ِکردار سے بھی آشنا تھے۔ ان کی شعلہ بیانی بے عمل واعظین کی طرح محض منبر و محراب کی زینت نہ تھی بلکہ ان کا ہر بول ہندوستان کے ایوانوں پہ لرزہ طاری کردیتا تھا۔ انھوں نے اوائل عمری میں جو نظریہ اپنایا ، عمر بھر اس سے وفا کی ۔ زندگی کا بیشتر حصہ پسِ دیوار ِ زنداں گزارا لیکن پائے استقامت میں لغزش نہ آئی۔ قید و بند کی صعوبتوں کو اپنے اسلاف کی سنت سمجھ کر جھیلا اور چکی کی مشقت کے دوران بھی مشق سخن جاری رکھی ۔اس سے بڑی سعادت اور کیا ہوگی کہ امام ابوحنیفہؒ کی طرح ان کا جنازہ بھی جیل سے اٹھا
محمد اشرف صحرائی1944 میں شمالی کشمیر کے ضلع کپواڑہ کے علاقے لولاب کے گاؤں ٹیکی پورہ میں پیدا ہوئے ، انہوں نے کپوارہ میں بنیادی تعلیم حاصل کی اور یوپی کی علی گڑھ مسلم یونیورسٹی سے اردو میں بی اے (آنرز) حاصل کیا۔1959 میں سید علی گیلانی سے وابستہ ہوئے اور 16 سال کی عمر میں 1960 میں جماعت اسلامی اسلمی میں شامل ہوگئے۔1965 میں پہلی بار حکومت مخالف سرگرمیوں / تقریر پر قید تھا۔سید علی گیلانی کے ساتھ 2004 میں تحریک حریت کے تشکیل کے لئے فعال کردار ادا کیا اور پارٹی کے بانی رکن بن گئے۔وہ 2004 سے 2018 تک جنرل سکریٹری رہے اور کل 443 میں سے 410 ووٹ لے کر چیئرمین تحریک حریت منتخب ہوئے۔ان کے چھ (6) بچے تھے ، چھوٹے بیٹے جنید سحرائی نے 19 مئی 2020 کو جنگ میں شہادت قبول کی۔
۔