وزارت مذہبی امورمیں سیرت کے حوالے سے لکھے گئے مقالے پر جعل سازی ،،،ریاست مدینہ اوراسلامی فلاحی مملکت کاتصور،کے عنوان سے لکھے گئے ڈاکٹرعامرطاسین کے مقالے پرآسیہ اکرام کوبھی صدارتی ایوارڈاورانعام سے نوازااوروزارت مذہبی امورکی طرف سے سیرت مقالات کے حوالے سے شائع کیے گئے خصوصی ایڈیشن میں بھی عامرطاسین کے مقالے کوآسیہ اکرام کے نام سے شامل کردیاتفصیلات کے مطابق سال 2019میں وزارت مذہبی امورنے ،،ریاست مدینہ اوراسلامی فلاحی مملکت کاتصور،کے عنوان سے مقابلے کروایاجس میں ملک بھرسے اس عنوان پر کتب ،نعت ،رسائل اورمقالہ جات تحریرکیے جاتے ہیں ۔
معروف دینی حلقے سے تعلق رکھنے والے اسکالر محقق،
مجلس علمی فاؤنڈیشن پاکستان کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر، بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی کے بورڈ آف گورنرزکے رکن اور پاکستان مدرسہ ایجو بورڈ کے سابق چیئرمین ہیں ۔
وزارت مذہبی امور کے زرائع سے حاصل ہونے خط کے مطابق جوکہ ڈاکٹر عامر طاسین نے وزیر مذہبی امور ڈاکٹر نور الحق قادری اور سیکرٹری مذہبی امور کے نام تحریر کیا ہے۔
اس خط کے مطابق
ڈاکٹر عامرطاسین نے اس عنوان پراپنامقالہ تحریر کرکے اس کی چار عدد کاپیاں4مارچ 2019 کووزارت مذہبی امورکو ارسال کیں۔جب کہ مقالہ جمع کروانے کی آخری تاریخ 29مارچ تھی مگر دو ماہ بعد 18مئی کووزارت مذہبی امورکے شعبہ تحقیق ومراجع سے ڈاکٹر عامر طاسین سے رابطہ کرکے کہاگیاکہ آپ کامقالہ ریکارڈ سے غائب ہوگیاہے آپ مہربانی فرماکر فوری طورپروہ مقالہ ہمیں mail1971@yahoo.comپرمیل کردیں ڈاکٹرعامرطاسین نے وہ مقالہ اسی دن مذکورہ ایڈریس پرمیل کردیا اور متعلقہ ڈی جی کو اس حرکت پر آگاہی بھی دے دی تھی۔ ضابطہ کے مطابق ججز حضرات نے بہترین اور قومی سطح پر ڈاکٹر عامر طاسین کو مقابلے میں دوسرے انعام کاحق دار قراردیا اور 10نومبر2019کوانہیں مقالہ پر انعام کے ساتھ ساتھ وزارت مذہبی امور کی طرف سے سیرت ایوارڈ بھی دیاگیا۔ مگر بعدازاں انکشاف ہواہے کہ ڈاکٹرعامرطاسین کے اسی مقالہ کو وزارت کی جانب سے کسی عملہ نے چوری کرتے ہوئے آسیہ اکرام کے نام سے خواتین کٹیگری میں جمع کرادیا اور
وزارت مذہبی امورکی جانب سے اسلام آباد کی اسی چوری شدہ مقالہ پر آسیہ اکرام نامی خاتون کو خواتین کٹیگری میں نہ صرف انعام سے نوازا بلکہ وزارت مذہبی امورکی طرف سے 2019کے جو مقالات سیرت شائع کیا گیا، اس کے صفحہ نمبر439پربھی ڈاکٹرعامر طاسین کا مکمل مقالہ آسیہ اکرام کے نام سے بھی شائع ہوا ہے۔حالانکہ اسی کتاب کے شروع میں یہی مقالہ ڈاکٹرعامرطاسین کے نام سے شائع ہواہے، واضح رہے کہ ڈاکٹرعامر طاسین اس سے قبل بھی بہترین سیرت نگار کے بطور مختلف موضوعات کے مقالہ جات پرسات مرتبہ قومی سیرت صدارتی ایوارڈحاصل کرچکے ہیں۔
اس حوالے سے جب ڈی جی وزارت مذہبی امور مشاہدحسین سے رابطہ کیاگیا توانہوں نے کہاکہ اس حوالے سے ڈپٹی ڈائریکٹر سیرت اورجے ایس ایڈمن تحقیقات کررہے ہیں۔ لیکن جب ڈپٹی ڈائریکٹرسیرت غلام مصطفی سے رابطہ کیاگیا توانہوں نے مجھے ایسی کوئی ذمہ داری نہیں دی گئی اورنہ ہی مجھے اس کا علم ہے اس بابت آپ مشاہدحسین سے رابطہ کریں۔ ڈاکٹرعامرطاسین سے رابطہ کرنے پربتایا کہ اس جعل سازی پرمیں پہلے ہی وزیرمذہبی امور،سیکرٹری مذہبی اوردیگرحکام کوخط لکھ چکاہوں جس میں میں نے مطالبہ کیاکہ اس جعل سازی کی تحقیقات کروائی جائیں اورآسیہ اکرام سے سیرت ایوارڈواپس لے کر اس کے خلاف اوراس عمل میں ملوث اہلکاروں کے خلاف قانونی کاروائی عمل میں لائی جائے ۔
ڈاکٹر عامر طاسین کا کہنا تھا موجودہ وزیر اعظم پاکستان کو ریاست مدینہ جیسی ریاست بنانے کا عزم رکھتے ہیں اور دوسری جانب وزارت مذہبی میں اسی عنوان سے سرقہ کرکے سنگین بد عنوانی کی گئی ہے۔ جس کی مکمل قانونی کاروائی عمل میں لائی جانی چاہیئے تاکہ آئندہ ایسی غیر اخلاقی حرکت نہ ہو۔
