قومی اسمبلی نے آئندہ مالی سال کے لئے مختلف وزارتوں ، ڈویژنوں اور محکموں سے متعلق ایک سو نواسی مطالبات زرکی منظوری دے دی ہے۔(189)
قومی اسمبلی کا اجلاس سپیکر اسد قیصر کی صدارت میں پارلیمنٹ ہاوس میں ہو ا۔ صنعتوں ا ور پیداوار کے وزیرحماد اظہر نےمطالبات زر ایوان پیش کئے۔
قومی اسمبلی نے آئندہ مالی سال کے لئے صنعتوں ا ور پیداوار ڈویژن سے متعلق پانچ اور وزارت داخلہ سے متعلق دس ،قومی تحفظ خوراک اور تحقیق کے چار مطالبات زر کی منظوری دے دی۔ قومی اسمبلی میں کٹوتی کی تحریکوں پر بحث سمیٹتے ہوئے صنعتوں ا ور پیداوار کے وزیرحماد اظہر نے کہا کہ پاکستان میں گاڑیوں میں حفاظتی فیچرز کا معیار ٹھیک نہیں ہے۔ ہم نے اسمبلرز کو مراعات اور سہولیات بھی دی ہیں۔ آٹو موبائل کی پالیسی پر 2021ءمیں نظرثانی کی جائے گی۔ کابینہ نے حال ہی میں بین الاقوامی معیار کے سیفٹی فیچرز متعارف کرانے کی منظوری دی ہے۔ انہوں نے کہا کہ برآمدات میں اضافہ کے لئے اقدامات کئے جارہے ہیں۔ ملک میں کاروبار کے لئے ماحول میں بہتری آئی ہے۔ چھوٹی صنعتوں کے لئے قرضوں میں اضافہ کیا گیا ہے۔ تیس لاکھ چھوٹے کاروبار کو ہم نے بجلی کی مراعات دی ہیں۔ ایف اے ٹی ایف کا معاملہ ہمیں ورثے میں ملا ہے۔ ایکشن پلان پر عملدرآمد کر رہے ہیں۔ موجودہ ایکشن پلان کو اکتوبر تک مکمل کیا جائے گا۔
اپوزیشن ارکان کی طر ف سے صنعتوں ا ور پیداوار ڈویژن کے مطالبات زر پر کٹوتی کی تحریکوں کو بحث کرتے ہوئے صنعتوں ا ور پیداوار ڈویژن کی کارکردگی پر تنقید کی۔ کٹوتی کی تحریکوں کو کثرت رائے سےمسترد کر دیا گیا۔ جس کے بعد ایوان نے تحاریک کی مرحلہ وارمنظوری دےدی۔
توانائی کے وزیرعمر ایوب نے پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافے پر پالیسی بیان دیتے ہوئے ایوان کو بتایا کہ تیل کی قیمتوں میں بین الاقوامی منڈ یوں میں ہونے والے اضافہ کے تناسب سے کم اضافہ کیاگیاہے۔پاکستان میں تیل کی قیمتیں جنوبی ایشیاءمیں سب سے کم ہے۔ انہوں نے کہاکہ حقائق یہ ہیں کہ اوپیک کی باسکٹ قیمت میں 48 فیصد اضافہ ہوا ہے۔ عالمی مارکیٹ میں 46 دن میں تیل کی قیمتوں میں 112 فیصد اضافہ ہوا ہے۔ اس شرح سے پاکستان میں جو اضافہ ہونا تھا وہ ساڑھے 41 روپے بنتا ہے تاہم حکومت نے پیٹرول کی قیمت میں 41 کی بجائے 25 روپے اور ڈیزل کی قیمت 24 روپے کی بجائے 21 روپے اضافہ کیا ہے۔ انہوں نے کہاکہ اس کے باوجود بھی نہ صرف برصغیر بلکہ جنوبی ایشیا ءکے مقابلے میں بھی پاکستان میں پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتیں کم ہیں۔ انہوں نے کہاکہ جنوری میں پٹرول کی قیمت 116.7 روپے اور ڈیزل کی قیمت 127.26 روپے تھی۔ حکومت نے پیٹرول کی قیمت میں 42 اور ڈیزل کی قیمت میں 47 روپے کمی تھی۔ انہوں نے کہاکہ موجودہ اضافہ کے باوجود جنوری کے مقابلے میں پیٹرول کی قیمت 17 روپے اور ڈیزل 26 روپے کم ہے۔ وفاقی وزیر نے ایشیا کے مختلف ملکوں میں پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں کا پاکستان میں قیمتوں سے موازانہ بھی پیش کیا۔ انہوں نے کہاکہ جس وقت عالمی منڈی میں تیل کی قیمت میں کمی آئی حکومت نے عوام کو فائدہ منتقل کیا جب اضافہ ہوا تو ہم نے ایک حد تک اضافہ کیا۔ حکومت نے 48 فیصد ٹیکس نہیں لگایا۔ ہم بجٹ اندازوں کے مطابق چل رہے ہیں۔ سابقہ ادوار میں ونڈ فال حکومت اپنے پاس رکھتی رہی ہے ہم نے ایسا نہیں کیا۔انہوں نے کہاکہ حکومت نے ٹرانسمیشن لائن کو 26 ہزار میگاواٹ کی ترسیل کے قابل بنایا ہے اور اس میں مزید اضافہ کیا جارہا ہے۔ ہم کلین اینڈ گرین اور متبادل توانائی کی طرف جارہے ہیں جو معاہدے ورثے میں ملے وہ مہنگے تھے۔عمر ایوب نے کہاکہ حکومت اپنا انرجی مکس بہتر کر رہی ہے۔ یہ حقائق ہیں جن کو کوئی جھٹلا نہیں سکتا۔ اپوزیشن پوائنٹ سکور نگ ضرور کرے لیکن حقائق عوام کے سامنے رکھنے چاہئیں۔ ماضی میں روپیہ کی قدر کو برقرار رکھنے کے لئے 24 ارب ڈالر تندور میں جھونکے گئے۔
حزب اختلاف کے ارکان کے نکتہ اعتراض کا جواب دیتے ہوئے ، پارلیمانی امور کےوزیر مملکت علی محمد خان نے کہا کہ وزیر اعظم آفس اور وزیر اعظم ہاؤس کے اخراجات میں گذشتہ دو سالوں میں نمایاں کمی ہوئی ہے۔
انہوں نے کہا کہ اس مالی سال کے دوران وزیر اعظم آفس کے لئے 474 ملین روپے مختص کیے گئے تھے۔ اس میں سے 137 ملین روپے واپس کئے جا چکے ہیں ۔اس طرح انیس فیصد کی بچت ہوئی ہے۔ انہوں نے کہا کہ وزیر اعظم عمران خان کا کوئی کیمپ آفس نہیں ہے۔
وزیر مملکت نے اس پر افسوس کا اظہار کیا کہ سابق وزرائے اعظم اور سابق صدر آصف علی زرداری نے اپنے غیر ملکی دوروں پر بڑی رقم خرچ کی۔
قومی اسمبلی نے وزارت قومی تحفظ خوراک اور تحقیق سے متعلق چار مطالبات زر کی منظوری دے دی ۔
قومی تحفظ خوراک اور تحقیق کےوزیر فخر امام نے کٹوتی کی تحریکوں پر بحث سمیٹتے ہوئے کہا کہ کاشتکاروں کو کھادوں سمیت ٹریکٹر اور کیڑے مار دوا مہیا کرنے کے لئے ایک طریقہ کار وضع کیا جارہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہم کاشتکاروں کو زرعی قرضوں میں بھی ریلیف فراہم کرنا چاہتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ پاکستان زراعت کے شعبے پر توجہ دے کر ترقی کی راہ پر گامزن ہوسکتا ہے۔ انہوں نے افسوس کا اظہار کیا کہ ماضی میں گندم اور کاٹن جیسی بڑی فصلوں کی فی ایکڑ پیداوار میں اضافہ کرنے کی کوئی کوشش نہیں کی گئی۔
انہوں نے کہا کہ ہماری گندم کی پیداوار ستائیس ملین ٹن کے ہدف کے مقابلہ میں پچیس ملین ٹن سے زیادہ ہے۔ انہوں نے کہا کہ حکومت نے ایک سے پندرہ لاکھ ٹن کی کمی کو پورا کرنے اور مارکیٹ میں اجناس کی قیمت کو مستحکم کرنے کے لئے گندم کی درآمد کا فیصلہ کیا ہے۔
تحفظ خوراک کے وزیر نے کہا کہ ٹڈیوں کے چیلنج سے نمٹنے کے لئے کوششیں تیز کردی گئیں ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ ٹڈیوں کے خلاف پچیس لاکھ ایکڑ رقبے پر اسپرے کیا گیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ اگلے مالی سال کے دوران پچیس بلین روپے لاگت سے فصلوں کو نقصان پہچانے والے کیڑوں پر قابو پائیں گے۔
قومی اسمبلی کے اجلاس میں بجٹ کی منظوری کا عمل جاری رہا۔قومی اسمبلی کا اجلاس پیر کی صبح گیارہ بجے تک ملتوی ہو گیا