جسٹس قاضی فائز عیسی کے خلاف صدارتی ریفرنس کلعدم، سپریم کورٹ

پاکستان کی سپریم کورٹ نے صدارتی ریفرنس خارج کرکے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ پر لگائے گئے الزامات کو غیر قانونی قرار دیتے ہوئے انھیں الزامات کی تحقیقات کیلئے معاملہ ایف بی آر سے سپرد کردیا۔اکثریتی فیصلے میں کہا گیا ایف بی آر دو ماہ میں تحقیقات مکمل کرکے سپریم جوڈیشل کونسل کو رپورٹ بھیجے،سپریم جوڈیشل کونسل ازخو د نوٹس اختیار کے تحت کارروائی کو آگے بڑھائے۔
سپریم کورٹ نے چھیالس سماعتوں کے بعد صدارتی ریفرنس کیخلاف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی درخواست قابل سماعت قرار دیدی۔ عدالت نے گیارہ صفحات پر مشتمل مختصر حکمنامہ جاری کردیا۔تحریری حکمنامے میں سپریم کورٹ کے د س جج صاحبان نے صدارتی ریفرنس خارج کرتے ہوئے قرار دیاصدارتی ریفرنس کی قانون کی نظر میں کوئی حیثیت نہیں،صدارتی ریفرنس کی بنیاد پر سپریم جوڈیشل کونسل کی طرف سے سترہ جولائی دو ہزار انیس کو جاری کردہ شو کاز نوٹس بھی ختم کردیاگیا۔

واضح رہے کہ صدر مملکت عارف علوی نے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کیخلاف سپریم جوڈیشل کونسل میں ریفرنس بھیجا تھا۔ صدارتی ریفرنس کو جسٹس قاضی فائز عیسیٰ سمیت متعدد بار کونسلز اور بار ایسوسی ایشنز نے آئینی درخواست کے ذریعے چیلنج کیا تھا۔

جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے صدارتی ریفرنس کیخلاف آئینی درخواست میں اہل خانہ کی خفیہ جاسوسی اور حکومتی بدنیتی کا ذکر کیا تھا۔وکلاء تنظیمیں بھی صدارتی ریفرنس کو عدلیہ کی خود مختاری کے خلاف قرار دیتے تھے۔

واضح رہے اس مقدمے میں جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی اہلیہ فریق نہیں ہیں۔

آج جمعہ کے دن شام چار بج کر گیارہ بجے جب سپریم کورٹ کے دس جج صاحبان فیصلہ سنانے کمرہ عدالت پہنچے تو کمرہ عدالت میں معمول سے زیادہ رش تھا۔

بنچ کے سربراہ جسٹس عمر عطا بندیال نے فیصلہ سنانے سے قبل قرآن کی سورۃ شوریٰ کی آیات پڑھیں،ایک آیت کا مفہوم یہ تھا اے اللہ ہمیں درست فیصلہ کرنے کی طاقت عطافرما۔

جسٹس عمرعطا بندیال،جسٹس منظور احمد ملک،جسٹس فیصل عرب،جسٹس مظہر عالم میاں خیل،جسٹس سجاد علی شاہ،جسٹس منیب اختر اور جسٹس قاضی محمد امین اکثریتی فیصلے دینے والے جج صاحبان میں شامل ہیں۔

سپریم کورٹ نے مختصر حکمنامے میں کہا ہے کہ سات دنوں میں کمشنر ان لینڈ ریونیو انکم ٹیکس آرڈیننس دو ہزار ایک کے تحت جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی اہلیہ اور بچوں کو غیر ملکی جائیدادوں پر وضاحت اور ذریعہ آمدن پوچھنے کیلئے نوٹس جاری کرے،نوٹسز جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی رہائش گاہ پر بذریعہ ڈاک ارسال کیے جائیں۔واضح رہے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کبھی لندن کی تین جائیدادوں کی ملکیت تسلیم نہیں کی اور ہمیشہ یہ موقف اختیار کیے رکھا کہ انکا جائیدادوں سے کوئی تعلق نہیں۔مذکورہ تینوں جائیدادیں لندن میں واقع ہیں۔

مختصر حکمنامے میں مزید کہا گیا ہے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی اہلیہ اور بچے ایف بی آر نوٹس کے جواب میں ریکارڈ اور مواد پیش کریں، فریقین میں سے کوئی بیرون ملک ہوتویہ اُس پر لازم ہے کہ وہ بروقت جواب دیں،کمشنر ان لینڈ کی کارروائی کسی شخص کے پاکستان میں عدم موجودگی کے سبب ملتوی یا تاخیر کا شکار نہیں ہونی چاہیے۔

سپریم کورٹ نے اکثریتی فیصلے میں کہا جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی اہلیہ اور بچے جب اپنے تحریری جوابات پیش کردیں تو کمشنر فریقین کو زاتی حیثیت،منتخب کردہ فرد یا وکیل کے زریعے زاتی شنوائی کا حق فراہم کرے،ایف بی آر کی جانب سے نوٹسز جاری ہونے کے بعد کمشنر دو ماہ میں کارروائی مکمل کرے اور الگے پندرہ دنوں میں کمشنر ان لینڈ ریونیو فیصلہ جاری کرے۔حکمنامے میں واضح کیا گیا ہے کہ ایف بی آر کو نہ مزید وقت دیا جائے نہ ہی دیے گئے وقت میں توسیع کی جائے گی۔

مختصر حکمنامے کے مطابق کمشنر ان لینڈ ریونیو کے حکم کے بعد سات دن کے اندر چیئرمین ایف بی آر ذاتی حیثیت سے اپنے دستخط شدہ رپورٹ سپریم جوڈیشل کونسل میں پیش کرے،رپورٹ کے ہمراہ کارروائی کا مکمل ریکارڈ بھی پیش کیا جائے،سیکرٹری سپریم جوڈیشل کونسل ایف بی آر کی رپورٹ چیئرمین سپریم جوڈیشل کونسل (چیف جسٹس آف پاکستان) کے سامنے پیش کریں،سپریم جوڈیشل کونسل رپورٹ کی بنیاد پر مزید کارروائی کر سکتی ہے۔

حکمنامے میں کہا گیا ہے کہ ایف بی آرسے رپورٹ وصول ہونے کے بعد کونسل آرٹیکل دو سو نو کے تحت کارروائی کو آگے بڑھاسکتی ہے،کونسل کارروائی کیلئے ازخود نوٹس کا اختیار حاصل کرسکتی ہے۔واضح رہے سپریم کورٹ نے اپنے مختصر حکمنامے میں ایک طرف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کیخلاف جوڈیشل کونسل کے جاری کردہ نوٹس کو کالعدم قراردیدیا اور ساتھ ہی جوڈیشل کونسل سے متعلق یہ لکھ دیا جوڈیشل کونسل کو ازخود نوٹس کے تحت کارروائی کا اختیار بھی حاصل ہے۔

مختصر اکثریتی فیصلے میں کہاگیا ہے کہ سو دنوں میں چیئرمین ایف بی آر کا سپریم جوڈیشل کونسل کو رپورٹ فراہم نہ کرنے پر وضاحت طلب کی جائے گی،کارروائی کیلئے ایف بی آر کا جواب بغیر کسی رپورٹ کے آیا یا کوئی جواب نہ دیا گیا تو یہ معاملہ چیئرمین جوڈیشل کونسل میں لایا جائے گا پھر کونسل مزید کارروائی یا آرڈ کیلئے جائزہ لے گا،حتمی نتیجے پر پہنچ کر جسٹس قاضی فائز عیسیٰ سمیت کسی کے خلاف بھی کارروائی کا کہا جا سکتا ہے۔

مختصر حکمنامے میں یہ وضاحت کی گئی ہے کہ انکم ٹیکس قانون کے تحت ایف بی آر کی کارروائی اور سپریم جوڈیشل کونسل کی کارروائی دو نوں ایک دوسرے سے یکسر مختلف اور الگ الگ ہیں۔کمشنر کے آرڈر کیخلاف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی اہلیہ اور بچوں کو اپیل کا حق حاصل ہوگا،سپریم جوڈیشل کونسل کے سامنے معاملہ ہونے کے سبب کمشنر کے آرڈر کیخلاف اپیل متاثر نہیں ہوگی۔یعنی اپیل اور کونسل کی کارروائی ساتھ ساتھ چل سکتی ہیں۔حکمنامے میں کہا گیا کہ کونسل کو یہ اختیار حاصل ہے کہ وہ کمشنر کیخلاف اپیل کے فورم کو ہدایات جاری کر سکتا ہے۔

جسٹس مقبول باقر اور جسٹس منصور علی شاہ نے مختصر حکمنامے میں لکھا کہ پاکستان کے آئین میں عدلیہ کی خودمختاری کو مکمل تحفظ حاصل ہے،آئین پاکستان تمام شہریوں کو مساوی حقوق اور مساوی برتاؤ کی بات کرتا ہے، آئین پاکستان میں جسٹس قاضی فائزعیسیٰ یا کوئی جج یا کوئی انفرادی شخص یا ادارہ قانون سے بالاتر نہیں، کسی جج کے خلاف کاروائی کے لیے سپریم کونسل کے دروازے ہر وقت کھلے ہیں،جج کو بھی آئین پاکستان کے تحت حقوق دیئے گئے ہیں۔

28مئی کو حکومت نے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف ریفرنس سپریم جوڈیشل کونسل کو بھیجا۔29 مئی کو ریفرنس سپریم جوڈیشل کونسل کو موصول ہوا۔14 جون کو سپریم جوڈیشل کونسل کا پہلا اجلاس ہوا۔سترہ جولائی کو کونسل نے قاضی فائز عیسیٰ کو شوکاز نوٹس جاری کیا۔سپریم جوڈیشل کونسل کے کل چار اجلاس منعقد ہوئے،سات اگست جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے صدارتی ریفرنس سپریم کورٹ میں چیلنج کردیا۔سترہ ستمبر کو کیس کی پہلی سماعت سات رکنی لارجر بینچ نے کی۔

سترہ ستمبر کو ہی منیر اے ملک نے جسٹس اعجازالاحسن اور جسٹس سردار طارق مسعود کی بینچ میں شمولیت کو چیلنج کیا۔منیر اے ملک نے 21 سماعتوں میں اپنے دلائل مکمل کیے۔مجموعی طور پر کیس کی 46 سماعتیں ہوئیں۔18 فروری کو سابق اٹارنی جنرل انور منصور نے بینچ میں شامل ایک جج پر الزام تراشی کی۔20 فروری کو کیپٹن ریٹائرڈ انور منصور نے متنازع بیان کے بعد اپنے عہدے سے استعفیٰ دے دیا۔24 فروری کو نئے اٹارنی جنرل خالد جاوید نے حکومت کی نمائندگی کرنے سے انکار کر دیا۔کورونا کی وجہ سے کیس تین ماہ سے زائد وقفے کے بعد دو جون کو سماعت کے لیے مقرر ہوا۔

سابق وزیر قانون فروغ نسیم نے وزارت سے استعفیٰ دے کر بغیر فیس مفت میں حکومتی وکیل کی خدمات سر انجام دیں۔فروغ نسیم ماضی میں بھی وزارت سے استعفیٰ دیکر آرمی چیف کا مقدمہ سن چکے ہیں۔

فروغ نسیم نے نو سماعتوں میں اپنے دلائل مکمل کیے۔جمعرات 18 جون کو لیڈی وائف نے ویڈیو اپنا بیان سپریم کورٹ میں ریکارڈ کروایا۔آج جمعہ 19 جون کو عدالت نے تمام فریقین کے وکلا کے دلائل مکمل ہونے پر فیصلہ محفوظ کر لیا۔واضح رہے خفیہ جاسوسی اور حکومتی بدنیتی بارے عدالتی ریمارکس اور وکیل صفائی کے دلائل انتہائی اہمیت رہے تاہم تفصیلی فیصلے میں اس بارے میں سپریم کورٹ نے کیا تحریر کرنا ہے یہ انتہائی اہم ہے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں