سپریم کورٹ میں جسٹس قاضی فائز کی اہلیہ نے ایک گھنٹہ ویڈیو لنک بیان میں لندن جائیدادوں کی منی ٹریل بتائی ہے۔
ان کے مطابق دو بینک اکاؤنٹس سے سات لاکھ پاؤنڈ لندن بھیجے۔ پہلی جائیداد 2004 میں خریدی جب قاضی فائز جج نہیں تھے۔
جسٹس قاضی فائز عیسی کی اہلیہ سرینہ کھوسہ نے ویڈیو لنک کے زریعے اپنا بیان ریکارڈ کرایا۔
انہوں نے کہا کہ ٹیکس ریٹرنز میں لندن جائیدادوں کی تفصیل ظاہر کر دی گئی تھی، میرے فارن کرنسی اکاؤنٹس کی تمام تفصیلات اسٹیٹ بنک کے پاس موجود ہیں۔
جسٹس قاضی فائز عیسی کی اہلیہ نے تقریبا پونے گھنٹے میں اپنا بیان ریکارڈ کرایا۔ بیان ریکارڈ کراتے ہوئے کئی بار وہ آبدیدہ ہوئیں اور ان کی ہچکی بندھ گئی۔
جسٹس قاضی فائز عیسی کی اہلیہ ویڈیو لنک کے زریعے بیان کے دوران بار بار پانی پیتی رہیں۔
انہوں نے بتایا کہ نام پر زرعی زمین بھی ہے جس کو ان والد دیکھتے تھے۔ یہ زمین جیکب آباد سندھ اور ڈیرہ مراد جمالی بلوچستان میں ہے۔
مسز فائز عیسیٰ نے بتایا کہ انہوں نے ریحان حسن نقوی ایڈووکیٹ کے ذریعے انکم ٹیکس ریٹرن فائل کیے جو اب اس دنیا میں نہیں رہے۔ اور ہمیشہ انہی کے مشورے سے قانونی معاملات کو نمٹایا کیونکہ وہ ٹیکس قوانین کے وکیل تھے۔
ان کا کہنا تھا کہ ریحان نقوی کے مشورے پر فارن کرنسی اکاؤنٹ کھلوائے اور انہی کے ذریعے رقم باہر بھیجی ۔ مسز فائز عیسیٰ نے کہا کہ حکومت کو میری زمین بارے میں پتہ ہے، میں غلط بیانی نہیں کروں گی۔
مسز فائز عیسیٰ نے فارن کرنسی اکاؤنٹ کا ریکارڈ بھی دکھایا اور کہا کہ مجھے یہ ریکارڈ حاصل کرنے کے لیے بڑی مشکلات کا سامنا کرنا پڑا، 2003 سے 2013 رقم اسی اکاؤنٹ سے باہر گئی، بینک دس سال سے پرانا ریکارڈ نہیں رکھتے۔
مسز فائز عیسیٰ نے برطانیہ میں ٹیکس گوشواروں کا 2016 سے اب تک کا ریکارڈ دکھایا۔ انہوں نے کہا کہ برطانیہ نے زیادہ ٹیکس دینے پر ٹیکس ریفنڈ کیا۔
انہوں نے کہا کہ میں ایف بی آر گئی، پہلے مجھے کئی گھنٹے انتظار کرایا گیا اور اس کے بعد ایک سے دوسرے افسر کے پاس بھیجا گیا۔ میں نے ان سے پوچھا کہ میرے ریجنل ٹیکس آفس کو کراچی سے اسلام آباد کیوں منتقل کیا گیا جبکہ میرا مستقل پتہ کراچی کا ہے تو ان کے پاس کوئی جواب نہیں تھا۔
مسز فائز عیسیٰ نے بتایا کہ انہوں نے ایف بی آر کو دو خط بھی لکھے ، اہلیہ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ
27 جنوری 2020 کو ایف بی آر جاکر پہلا خط حوالے کیا ، اہلیہ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ
جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ ’ہم نے نوٹس کیا ہے کہ آپ کے پاس ریکارڈ موجود ہے، ہمارے لیے مسئلہ یہ ہے کیس کے میرٹ کا جائزہ نہیں لے سکتے۔‘
جسٹس عمر عطا بندیال نے مسز عیسیٰ سے کہا کہ آپ کے پاس دو فورم ہیں، فریقین سے پوچھا کہ معاملہ ایف بی آر کو بھجوا دیتے ہیں، دوسرا فورم سپریم جوڈیشل کونسل ہے، آپ وہاں پر موقف دے سکتی ہیں، آپ کے پاس سوالات کے مضبوط جواب ہیں، متعلقہ اتھارٹی کو ان دستاویزات سے مطمئن کریں۔
انہوں نے مسز عیسیٰ سے کہا کہ آپ کے حوصلے کی داد دیتے ہیں، آپ ایک حوصلہ مند خاتون اور اپنے شوہر کی پارٹنر ہیں۔
مسز فائز عیسیٰ نے کہا کہ ’مجھ سے یہ بات پہلے کیوں نہیں پوچھی گئی، 13 ماہ میں نے انتظار کیا، میرے بیٹے کو انگلینڈ میں ہراساں کیا گیا، پیسہ بینک اکاونٹ سے لندن بھیجا گیا۔‘
مسز عیسیٰ نے کہا کہ ’میرے نام سے پیسہ باہر گیا۔ جس اکائونٹ سے پیسہ باہر گیا وہ میرے نام پر ہے، ایک پراپرٹی 236000 پاونڈز میں خریدی گئی۔ سٹینڈر چارٹرڈ بینک کے فارن کرنسی اکائونٹس میں سات لاکھ پاونڈز کی رقم ٹرانسفر کی گئی۔‘
انہوں نے کہا کہ یہ تمام دستاویزات جو میں نے دکھائی ہیں اصلی ہیں، مجھے محدود وقت دیا گیا ہے، میرا لندن اکاونٹ بھی صرف میرے نام پر ہے۔
245000 پاونڈز سے 2013 میں تیسری جائیداد خریدی۔ اس پراپرٹی میں میرا بیٹا رہتا ہے۔ 270000 پاونڈز سے پراپرٹی اپنے اور بیٹی کے نام خریدی۔یہ پراپرٹی میرے شوہر کی نہیں میرے اور بیٹی کے نام ہے۔ امریکن اسکول میں کام کرنا بند کیا تو ریحان نقوی نے تجویز دی کہ آمدن قابل ٹیکس نہیں۔ اب قانون تبدیل ہو گیا ہے۔
2 جائیدادیں کرایہ پر دے دی گئیں، لندن کی تیسری پراپرٹی میں بیٹا رہتا ہے۔ اب میں پاکستان اور برطانیہ میں انکم ٹیکس دیتی ہوں۔ ایف بی آر آغاز میں ہی مجھ سے یہ پوچھ لیتا۔
میں کسی قسم کی رعایت نہیں مانگتی۔ عام شہری کی طرح قانون کے مطابق سلوک کیا جائے۔ قانون کہتا ہے کہ پانچ سال پرانے ٹیکس ریٹرن کا نہیں پوچھا جا سکتا۔
مسز قاضی فائز کی جانب سے بار بار مختلف دستاویزات سکرین کے سامنے کی جاتی رہیں اور حکومتی ٹیم کے سربراہ فروغ نسیم اور ان کے دیگر ساتھی گردن موڑ کر دیکھتے رہے۔
بینچ کے سربراہ نے کہا کہ یہ اس ملک کی روایت ہے کہ ٹیکس دینے والے کو خود حکام کے پاس جانا پڑتا ہے جب 13 ماہ سے آپ سے کسی نے نہیں پوچھا تو آپ کو چلے جانا چاہیے تھا۔ ’امید کرتے ہیں ٹیکس کی حکام آپ کو عزت دیں گے۔‘
’میں آپ کو ایک بات بتا دوں کہ ہم ججز قابل احتساب ہیں۔ ججز نجی اور پبلک زندگی میں جوابدہ ہیں۔ آپ ایک جج کی لائف پارٹنر ہیں۔ آپ نے جو جواب دیا وہ قانون کا تقاضا ہے۔‘
ہم دوسرے پبلک آفس ہولڈرز سے زیادہ جواب دہ ہیں۔
عدالت نے اہلیہ جسٹس قاضی فائز عیسی کا تازہ ترین ٹیکس گوشواروں کا ریکارڈ سیل لفافے میں طلب کر لیا
بینچ کے سربراہ نے وکیل فروغ نسیم سے کہا کہ جج کی اہلیہ نے ایف بی آر کی بہت شکایت کی ہے۔
وکیل فروغ نسیم نے کہا کہ ایف بی آر نے زیادتی کی تو براہ راست شکایت وزیر اعظم کے پاس جائے گی۔
نسز قاضی فائز نے کہا کہ میں لندن کی جائیدادیں 2018 کے گوشواروں میں جمع کرا چکی ہوں۔
بینچ کے سربراہ نے کہا کہ آپ بہت بہادر اور حوصلہ مند خاتون ہیں۔ مسز عیسیٰ نے کہا کہ ان کو پہلی مرتبہ اپنی بات کرنے کا موقع ملا۔
بینچ کے سربراہ نے کہا کہ اچھے ذہن کے ساتھ آپ کو موقع دیا، جسٹس عمر عطاء بندیال نے کہا کہ ہمارے پاس مقدمہ میرٹ پر سننے کا حق نہیں، ہم آپ کے حوالے سے مطمئن ہے،خریداری کے زرائع سے بھی مطمئن ہیں، اس پر فیصلہ متعلقہ اتھارٹی نے کرنا ہے، آدھا گھنٹہ سن کر محسوس ہوا کہ آپ کے پاس اپنا موقف پیش کرنے کے لیے کافی کچھ ہے۔
مسز فائز عیسیٰ نے کہا کہ ’میں عدالت سے کسی قسم کی خصوصی رعایت نہیں مانگ رہی، عدالت سے استدعا ہے کہ مجھے وہی آئینی حقوق دیئے جائیں جو ایک عام پاکستانی شہری کو حاصل ہیں۔‘
بینچ کے سربراہ نے کہا کہ اگر ٹیکس والوں نے نہیں پوچھا تو آپ کو ان کے پاس جانا ہوگا، اس ملک کی عجیب روایت ہے، یہاں ٹیکس دینے والا خود چل کر ایف بی آر کے دفتر جاتا ہے، یہاں ایس ایچ او فوجداری مقدمہ میں جائے وقوعہ پر نہیں جاتا، بیگم صاحبہ یہ مقدمہ آپ کا یا جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کا نہیں، اس مقدمہ میں پوری عدلیہ کا ٹرائل ہو رہا ہے۔