تحریر..وسیم چوہدری
لاہور
یہ آج سے تقریباً 40 سال پہلے کی بات ہے جب میں کالج میں پڑھتا تھا، ایک روز کالج سے واپسی پر ہماری کالج بس کو ایک جاپانی لڑکی نے رکنے کا اشارہ کیا، ہم نے بس رکوائی تو اس نے ٹوٹی پھوٹی انگلش میں کہا کہ ” میں نے کینٹ جانا ہے”، ہماری بس نے چونکہ کینٹ سے گزرنا تھا لہٰذا اسے بھی ساتھ لے لیا، نتیجہ یہ کہ اگلے دو دن اسے شہر کی خوب سیر کروائی، وہ بہت خوش تھی کہ مفت میں گائیڈ مل گیا اور ہم —- ہماری خوشی کا تو کوئی ٹھکانہ نہیں تھا،
اس نے جو نام بتایا وہ کبھی یاد ہی نہیں رہا، یاد رہا تو صرف ایک نام، ایک لفظ “بونسائی”، جاپانی کلچر کی بات کرتے ہوئے اس نے بتایا تھا کہ ایک آرٹ ہمارے کلچر کا اہم حصہ ہے جسے ‘بونسائی’ کہتے ہیں، یہ پہلا موقع تھا جب میں نے لفظ بونسائی سنا، سننے میں اچھا لگا، لیکن بونسائی کی جو تعریف اس نے بتائی وہ بالکل پلے نہ پڑی، جیسے اس کا نام پلے نہ پڑا تھا، ہاں دلچسپ بات یہ کہ میں نے اس لڑکی کو ہمیشہ بونسائی کے نام سے یاد رکھا۔
اس واقعہ کے 20 سال بعد دوبارہ اسکی یاد آئی، میرے گھر کی تعمیر کے دوران، ایک مستری نے پکوڑے کھانے کے بعد کاغذ پھینکا تو ایک تصویر پر نظریں جم کر رہ گئیں، وہ ایک چھوٹا سا درخت تھا، گویا کسی دیو ہیکل درخت کو بونا بنا دیا جائے، وہ ایک ٹرے کی طرح کے گملے میں لگا ہوا تھا،
اخبار شاید جاپانی زبان میں تھا یا پھر چینی، بہرحال ایک لفظ تصویر کے نیچے انگریزی میں بھی لکھا تھا BONSAI , ایک لمحے میں 20 سال پرانی یادیں کسی سائے کی طرح ذہن میں گھوم گئیں، ایک چھوئی موئی سی، شرمیلی سی لڑکی، اور آج ایک چھوٹا سا، شرمیلا سا درخت،،،، آہ بونسائی،
چند دن بعد گھر کی تعمیر کے دوران ہی زمین میں لگا ایک 10-8 انچ کا پیپل کا پودہ نظر آیا، جو دیکھنے میں کسی بڑے درخت کی شبیہہ تھا، میں نے اسے احتیاط سے نکال کر ایک پیالہ نما گملے میں لگا دیا اور فخر سے اپنی بیوی کو بتایا کہ یہ ایک جاپانی آرٹ ہے جسے بونسائی کہتے ہیں،، وہ میرا پہلا بونسائی تھا جو ایک سال کے بعد مر گیا کیونکہ نہ مجھے یہ پتہ تھا کہ بونسائی کو کیسے سنبھالتے ہیں اور نہ یہ کہ اس کی شکل و صورت کو کیسے برقرار رکھتے ہیں،
مجھے کاروبار کے سلسلے میں شہر بدر ہونا پڑا یوں کاروباری مصروفیات کے باعث بونسائی کیا ہر قسم کے شوق سے دور ہوتا چلا گیا،
16 سال کے بعد 2014 میں جب زرا فرصت ملی تو دل میں پھر سے پرانا شوق جاگا اور میں نے اپنے دوسرے بونسائی پر کام شروع کیا، اس کے بعد میں تھا اور میرے بونسائی،، یوں سمجھئے کہ اب بونسائی ہی میری آخری محبت ہے،
دوستو! اس آرٹ کو سیکھنے میں، میں نے بہت محنت، وقت اور وسائل لگائے ہیں اور میں چاہتا ہوں کہ میرے تجربے سے باقی لوگ بھی استفاده کریں،
لٰہذا اگلی قسط سے میں مرحلہ وار آپ کو بونسائی کے متعلق تفصیل سے بتاؤں گا،، تاکہ آپ بھی یہ فن سیکھ سکیں،
فی امان الله