کرونا وائرس کے دوران اکثریت احتیاط نہ کرنے پہ کیوں مُصر ہیں؟
حصہ سوم
تحریر.. ڈاکٹر اعزاز جمال ماہر نفسیات
دوسرے وہ افراد ہیں جو اس تمام صورتِ حال کو بالکل بھی سنجیدگی سے نہیں لے رہے۔
ان کا رویہ دیکھ کر لگ رہا ہے کہ شاید انہیں اس تمام صورتِ حال کی کوئی پروا نہیں، شاید وہ خدا پہ پختہ یقین رکھتے ہیں یا ان کا اپنے روحانی پیشوا سے رابطہ بہت مظبوط ہے۔ ہمیں کئی طرف سے اس قسم کی وڈیوز، واٹس ایپ اور دوسرے ذرائع سے یہ دیکھنے میں آرہا ہے کہ لوگ چھٹیاں ملنے پہ باہر گھوم رہے ہیں، جو پہلے اس قسم کا ہلہ گلہ کرنا نظر انداز کرتے تھے وہ بھی دوستوں کے ساتھ باہر نکلنے کے لیے بے چین ہیں۔ مذہبی تقاریب زیادہ جوش و جذبے سے کرنے پہ زیادہ زور دے رہے ہیں، طے کی گئی شادی اسی دھوم دھڑکے سے کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ مصافحہ کرنے یا معانقہ کرنے سے اجتناب پہ بہت شدید ناگواریت کا اظہار کر رہے ہیں اور منع کرنے والے کو کئی مذہبی و جذباتی دلائل دے رہے ہیں۔ لیکن اصل میں یہ دونوں ردعمل شدید ذہنی دباؤ کی نشانی ہیں۔
یقیناً آپ سوچیں گے کہ پہلے والا ردعمل تو ذہنی دباؤ کا لگتا ہے لیکن دوسرا ردعمل ذہنی دباؤ کا کیسے ہوسکتا ہے؟
دیکھیے انسانی دماغ جہاں ایک طرف بہت ذہین، تیز رفتار اور اسمارٹ قدرتی ڈیوائس یا مشین ہے وہیں اس کے کام کا طریقہ کبھی کبھی عجیب نتائج دکھاتا ہے۔ جب تک ذہنی دباؤ ہمارے اعصاب کی ہمت جتنا رہتا ہے ہم گھبراہٹ کا اظہار بھی کرتے ہیں اور اس سے نمٹنے کا کوئی نہ کوئی طریقہ بھی نکالنے کی کوشش کرتے ہیں۔ حد یہ کہ سب چھوڑ چھاڑ کے بیٹھ کے رونا بھی ایک حل ہے۔ رونا اسٹریس ہارمونز یعنی کورٹیسولز کو آنسوؤں کے ساتھ باہر نکال دیتا ہے اور ہم نسبتاً پرسکون ہوجاتے ہیں۔ پرسکون ہونے کے بعد ہمارا دماغ مختلف حل بہتر طور پہ سوچ سکتا ہے۔
لیکن جب کسی کا دماغ یا لاشعور یہ سمجھ لے کہ صورت حال اس کے اعصاب کی ہمت سے زیادہ کٹھن ہے تو وہ شعوری طور پہ اس مسئلے کے سنگینی کو قبول کرنے سے انکاری ہوجاتا ہے۔ یقیناً ہر وہ بندہ جو اس کی سنگینی سے انکاری ہو وہ ضروری نہیں کہ اوپر بیان کی گئی وجہ سے ہو۔ اس کا بھی امکان ہے کہ اس کی معلومات مکمل نہ ہوں اور جتنی معلومات اس تک پہنچی ہیں وہ اس کو درست حد تک حفاظتی اقدامات کرنے پہ آمادہ کرنے میں معاون نہ ہوں۔ لیکن مکمل معلومات ہونے کے باوجود اس کی سنگینی سے انکار کرنے میں زیادہ امکان اسی بات کا ہے کہ ان کے اعصاب اس کی شِدّت برداشت کرنے سے قاصر ہیں۔ آپ نے ان افراد کو دیکھا ہوگا جو اپنے کسی عزیز کی اچانک موت کا سن کر یقین نہیں کرپاتے۔ کیوں کہ ان کا دماغ اس شدید صدمے کو سہہ نہیں پاتا۔
اس وقت جو وبائی کیفیت ہے اس میں بھی بہت سے لوگ اسی شدید اعصابی کشیدگی کا شکار ہیں۔ وہ چاہ رہے ہیں کہ ان کے اردگرد سب نارمل نظر آئے اور یہ گلیوں کی ویرانی ان کے اعصاب پہ شدید اثر انداز ہو رہی ہے۔ جب کوئی ان کے سامنے کورونا کا تذکرہ کرتا ہے تو وہ بہت شدت سے اس کی سنگینی کا انکار کرتے ہیں، اور دلیل کے طور پہ اپنے عقیدے، معاشرت حد یہ کہ اپنے سیاسی نظرئیے کو بھی ڈھال کے طور پہ پیش کرتے ہیں۔ آپ کو بھی حالیہ صورتِ حال میں کئی ایسی مثالیں نظر آرہی ہوں گی جہاں پہ پھیلتی وبا کی ذمہ داری کسی نہ کسی حوالے سے کسی دوسرے گروہ پہ ڈالی جارہی ہے، مخالف گروہ کے افراد کے بیمار ہونے پہ خوشی کا اظہار کیا جارہا ہے، کئی سوڈو سائنٹفک نظریات روز تھیوری کی شکل میں پھیل رہے ہیں۔ کئی سیاسی اکھاڑے دوبارہ آباد ہوگئے ہیں۔ ہمیں یہ بات ذہن میں رکھنی چاہیے کہ دھوکے باز افراد ہمیشہ انسانی نفسیات کے دو پہلوؤں کا فائدہ اٹھاتے ہیں کیوں کہ ان دو روئیوں کی وجہ سے سوچنے سمجھنے کی صلاحیت محدود ہوجاتی ہے۔ ایک لالچ اور دوسرا خوف، آج کل کے حالات میں مجرمانہ ذہنیت رکھنے والے افراد اسی طرح لوگوں کو جھوٹے علاج کا لالچ دے کر یا بیماری پھیلنے کے حوالے سے غلط معلومات کی مدد سے خوف پیدا کرکے اپنا مفاد پورا کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔
جاری ہے۔۔۔۔۔۔۔